Josh Malihabadi Famous Poetry in Urdu, Nazm, Ghazal

Josh Malihabadi was a revolutionary poet of the time of Subcontinent, due to which he is considered as a poet of revolution. He created a unique place in the world of Urdu by writing more than 1000 Rubaiyat. He had a liberal mind. Some of his famous ghazals and poems are presented.

GHAZAL

Famous Poetry of Josh Malihabadi

Wo Sabr De Kh Na De Jis Ne Be-Qarar Kiya

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا
بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا

تمہارا ذکر نہیں ہے تمہارا نام نہیں
کیا نصیب کا شکوہ ہزار بار کیا

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

مآل ہم نے جو دیکھا سکون و جنبش کا
تو کچھ سمجھ کے تڑپنا ہی اختیار کیا

مرے خدا نے مرے سب گناہ بخش دیے
کسی کا رات کو یوں میں نے انتظار کیا

=========

Is Baat Ki Nahin Hai Koi Intiha Na Puchh

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ
اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ

کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ

جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے
اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ

پیش نظر ہے پست و بلند رہ جنوں
ہم بے خودوں سے قصۂ ارض و سما نہ پوچھ

سنبل سے واسطہ نہ چمن سے مناسبت
اس زلف مشکبار کا حال اے صبا نہ پوچھ

صد محفل نشاط ہے اک شعر دلنشیں
اس بربط سخن میں ہے کس کی صدا نہ پوچھ

کر رحم میرے جیب و گریباں پہ ہم نفس
چلتی ہے کوئے یار میں کیونکر ہوا نہ پوچھ

رہتا نہیں ہے دہر میں جب کوئی آسرا
اس وقت آدمی پہ گزرتی ہے کیا نہ پوچھ

ہر سانس میں ہے چشمۂ حیوان و سلسبیل
پھر بھی میں تشنہ کام ہوں یہ ماجرا نہ پوچھ

بندہ ترے وجود کا منکر نہیں مگر
دنیا نے کیا دیئے ہیں سبق اے خدا نہ پوچھ

کیوں جوشؔ راز دوست کی کرتا ہے جستجو
کہہ دو کوئی کہ شاہ کا حال اے گدا نہ پوچھ

=========

Soz-e-Gham De Ke Mujhe Us Ne Ye Irshad Kiya

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اے میں سو جان سے اس طرز تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

کچھ نہیں اس کے سوا جوشؔ حریفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا

=========

Meri Haalat Dekhiye Aur Unki Surat Dekhiye

میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے
پھر نگاہ غور سے قانون قدرت دیکھیے

سیر مہتاب و کواکب سے تبسم تابکے
رو رہی ہے وہ کسی کی شمع تربت دیکھیے

آپ اک جلوہ سراسر میں سراپا اک نظر
اپنی حاجت دیکھیے میری ضرورت دیکھیے

اپنے سامان تعیش سے اگر فرصت ملے
بیکسوں کا بھی کبھی طرز معیشت دیکھیے

مسکرا کر اس طرح آیا نہ کیجے سامنے
کس قدر کمزور ہوں میں، میری صورت دیکھیے

آپ کو لایا ہوں ویرانوں میں عبرت کے لیے
حضرت دل دیکھیے اپنی حقیقت دیکھیے

صرف اتنے کے لیے آنکھیں ہمیں بخشی گئیں
دیکھیے دنیا کے منظر اور بہ عبرت دیکھیے

موت بھی آئی تو چہرے پر تبسم ہی رہا
ضبط پر ہے کس قدر ہم کو بھی قدرت دیکھیے

یہ بھی کوئی بات ہے ہر وقت دولت کا خیال
آدمی ہیں آپ اگر تو آدمیت دیکھیے

پھوٹ نکلے گا جبیں سے ایک چشمہ حسن کا
صبح اٹھ کر خندۂ سامان قدرت دیکھیے

رشحۂ شبنم بہار گل فروغ مہر و ماہ
واہ کیا اشعار ہیں دیوان فطرت دیکھیے

اس سے بڑھ کر اور عبرت کا سبق ممکن نہیں
جو نشاط زندگی تھے ان کی تربت دیکھیے

تھی خطا ان کی مگر جب آ گئے وہ سامنے
جھک گئیں میری ہی آنکھیں رسم الفت دیکھیے

خوش نما یا بد نما ہو دہر کی ہر چیز میں
جوشؔ کی تخئیل کہتی ہے کہ ندرت دیکھیے

=========

Jab Se Marne Ki Ji Mein Thani Hai

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے
کس قدر ہم کو شادمانی ہے

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مرا فن خاندانی ہے

کیوں لب التجا کو دوں جنبش
تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے

آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا
مہربانی ہے مہربانی ہے

دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا
تلخ ان سب کی زندگانی ہے

کوئی صدمہ ضرور پہنچے گا
آج کچھ دل کو شادمانی ہے

=========

Qadam Insan Ka Rah-e-Dahr Mein Tharra Hi Jata Hai

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے

خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے

ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے

شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے

سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے

=========

Behoshiyon Ne Aur Khabardar Kar Diya

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا
سوئی جو عقل روح نے بیدار کر دیا

اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں
اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا

یا رب یہ بھید کیا ہے کہ راحت کی فکر نے
انساں کو اور غم میں گرفتار کر دیا

دل کچھ پنپ چلا تھا تغافل کی رسم سے
پھر تیرے التفات نے بیمار کر دیا

کل ان کے آگے شرح تمنا کی آرزو
اتنی بڑھی کہ نطق کو بیکار کر دیا

مجھ کو وہ بخشتے تھے دو عالم کی نعمتیں
میرے غرور عشق نے انکار کر دیا

یہ دیکھ کر کہ ان کو ہے رنگینیوں کا شوق
آنکھوں کو ہم نے دیدۂ خوں بار کر دیا

=========

NAZM

Shikast-e-Zindan Ka Khwab

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں

آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں

کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں

کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں

کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں

سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

=========

Watan Ke Naam

اے وطن پاک وطن روح روان احرار
اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن رنگ بہار

اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار
اے کہ ہر خار ترا رو کش صد روئے نگار

ریزے الماس کے تیرے خس و خاشاک میں ہیں
ہڈیاں اپنے بزرگوں کی تری خاک میں ہیں

پائی غنچوں میں ترے رنگ کی دنیا ہم نے
تیرے کانٹوں سے لیا درس تمنا ہم نے

تیرے قطروں سے سنی قرأت دریا ہم نے
تیرے ذروں میں پڑھی آیت صحرا ہم نے

کیا بتائیں کہ تری بزم میں کیا کیا دیکھا
ایک آئینے میں دنیا کا تماشہ دیکھا

تیری ہی گردن رنگیں میں ہیں بانہیں اپنی
تیرے ہی عشق میں ہیں صبح کی آہیں اپنی

تیرے ہی حسن سے روشن ہیں نگاہیں اپنی
کج ہوئیں تیری ہی محفل میں کلاہیں اپنی

بانکپن سیکھ لیا عشق کی افتادوں سے
دل لگایا بھی تو تیرے ہی پری زادوں سے

پہلے جس چیز کو دیکھا وہ فضا تیری تھی
پہلے جو کان میں آئی وہ صدا تیری تھی

پالنا جس نے ہلایا وہ ہوا تیری تھی
جس نے گہوارے میں چوما وہ صبا تیری تھی

اولیں رقص ہوا مست گھٹائیں تیری
بھیگی ہیں اپنی مسیں آب و ہوا میں تیری

اے وطن آج سے کیا ہم ترے شیدائی ہیں
آنکھ جس دن سے کھلی تیرے تمنائی ہیں

مدتوں سے ترے جلووں کے تماشائی ہیں
ہم تو بچپن سے ترے عاشق و سودائی ہیں

بھائی طفلی سے ہر اک آن جہاں میں تیری
بات تتلا کے جو کی بھی تو زباں میں تیری

حسن تیرے ہی مناظر نے دکھایا ہم کو
تیری ہی صبح کے نغموں نے جگایا ہم کو

تیرے ہی ابر نے جھولوں میں جھلایا ہم کو
تیرے ہی پھولوں نے نو شاہ بنایا ہم کو

خندۂ گل کی خبر تیری زبانی آئی
تیرے باغوں میں ہوا کھا کے جوانی آئی

تجھ سے منہ موڑ کے منہ اپنا دکھائیں گے کہاں
گھر جو چھوڑیں گے تو پھر چھاؤنی چھائیں گے کہاں

بزم اغیار میں آرام یہ پائیں گے کہاں
تجھ سے ہم روٹھ کے جائیں بھی تو جائیں گے کہاں

تیرے ہاتھوں میں ہے قسمت کا نوشتہ اپنا
کس قدر تجھ سے بھی مضبوط ہے رشتہ اپنا

اے وطن جوش ہے پھر قوت ایمانی میں
خوف کیا دل کو سفینہ ہے جو طغیانی میں

دل سے مصروف ہیں ہر طرح کی قربانی میں
محو ہیں جو تری کشتی کی نگہبانی میں

غرق کرنے کو جو کہتے ہیں زمانے والے
مسکراتے ہیں تری ناؤ چلانے والے

ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے

تجھ کو جیتے ہیں تو غم ناک نہ ہونے دیں گے
ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے

جی میں ٹھانی ہے یہی جی سے گزر جائیں گے
کم سے کم وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے

=========

Rishwat

لوگ ہم سے روز کہتے ہیں یہ عادت چھوڑیئے
یہ تجارت ہے خلاف آدمیت چھوڑیئے
اس سے بد تر لت نہیں ہے کوئی یہ لت چھوڑیئے
روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ رشوت چھوڑیئے

بھول کر بھی جو کوئی لیتا ہے رشوت چور ہے
آج قومی پاگلوں میں رات دن یہ شور ہے

کس کو سمجھائیں اسے کھودیں تو پھر پائیں گے کیا
ہم اگر رشوت نہیں لیں گے تو پھر کھائیں گے کیا
قید بھی کر دیں تو ہم کو راہ پر لائیں گے کیا
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

ملک بھر کو قید کر دے کس کے بس کی بات ہے
خیر سے سب ہیں کوئی دو چار دس کی بات ہے

یہ ہوس یہ چور بازاری یہ مہنگائی یہ بھاؤ
رائی کی قیمت ہو جب پربت تو کیوں نہ آئے تاؤ
اپنی تنخواہوں کے نالے میں ہے پانی آدھ پاؤ
اور لاکھوں ٹن کی بھاری اپنے جیون کی ہے ناؤ

جب تلک رشوت نہ لیں ہم دال گل سکتی نہیں
ناؤ تنخواہوں کے پانی میں تو چل سکتی نہیں

رشوتوں کی زندگی ہے چور بازاری کے ساتھ
چل رہی ہے بے زری احکام زرداری کے ساتھ
پھرتیاں چوہوں کی ہیں بلی کی طراری کے ساتھ
آپ روکیں خواہ کتنی ہی ستم گاری کے ساتھ

ہم نہیں ہلنے کے سن لیجے کسی بھونچال سے
کام یہ چلتا رہے گا آپ کے اقبال سے

یہ ہے مل والا وہ بنیا ہے یہ ساہوکار ہے
یہ ہے دوکاں دار وہ ہے وید یہ عطار ہے
وہ اگر ٹھگ ہے تو یہ ڈاکو ہے وہ بٹ مار ہے
آج ہر گردن میں کالی جیت کا اک ہار ہے

حیف ملک و قوم کی خدمت گزاری کے لیے
رہ گئے ہیں اک ہمیں ایمان داری کے لیے

بھوک کے قانون میں ایمان داری جرم ہے
اور بے ایمانیوں پر شرمساری جرم ہے
ڈاکوؤں کے دور میں پرہیزگاری جرم ہے
جب حکومت خام ہو تو پختہ کاری جرم ہے

لوگ اٹکاتے ہیں کیوں روڑے ہمارے کام میں
جس کو دیکھو خیر سے ننگا ہے وہ حمام میں

توند والوں کی تو ہو آئینہ داری واہ وا
اور ہم بھوکوں کے سر پر چاند ماری واہ وا
ان کی خاطر صبح ہوتے ہی نہاری واہ وا
اور ہم چاٹا کریں ایمان داری واہ وا

سیٹھ جی تو خوب موٹر میں ہوا کھاتے پھریں
اور ہم سب جوتیاں گلیوں میں چٹخاتے پھریں

خوب حق کے آستاں پر اور جھکے اپنی جبیں
جائیے رہنے بھی دیجے ناصح گردوں نشیں
توبہ توبہ ہم بھڑی میں آ کے اور دیکھیں زمیں
آنکھ کے اندھے نہیں ہیں گانٹھ کے پورے نہیں

ہم پھٹک سکتے نہیں پرہیزگاری کے قریب
عقل مند آتے نہیں ایمان داری کے قریب

اس گرانی میں بھلا کیا غنچۂ ایماں کھلے
جو کے دانے سخت ہیں تانبے کے سکے پل پلے
جائیں کپڑے کے لیے تو دام سن کر دل ہلے
جب گریباں تا بہ دامن آئے تو کپڑا ملے

جان بھی دے دے تو سستے دام مل سکتا نہیں
آدمیت کا کفن ہے دوستوں کپڑا نہیں

صرف اک پتلون سلوانا قیامت ہو گیا
وہ سلائی لی میاں درزی نے ننگا کر دیا
آپ کو معلوم بھی ہے چل رہی ہے کیا ہوا
صرف اک ٹائی کی قیمت گھونٹ دیتی ہے گلا

ہلکی ٹوپی سر پہ رکھتے ہیں تو چکراتا ہے سر
اور جوتے کی طرف بڑھیے تو جھک جاتا ہے سر

تھی بزرگوں کی جو بنیائن وہ بنیا لے گیا
گھر میں جو گاڑھی کمائی تھی وہ گاڑھا لے گیا
جسم کی ایک ایک بوٹی گوشت والا لے گیا
تن میں باقی تھی جو چربی گھی کا پیالہ لے گیا

آئی تب رشوت کی چڑیا پنکھ اپنے کھول کر
ورنہ مر جاتے میاں کتے کی بولی بول کر

پتھروں کو توڑتے ہیں آدمی کے استخواں
سنگ باری ہو تو بن جاتی ہے ہمت سائباں
پیٹ میں لیتی ہے لیکن بھوک جب انگڑائیاں
اور تو اور اپنے بچے کو چبا جاتی ہے ماں

کیا بتائیں بازیاں ہیں کس قدر ہارے ہوئے
رشوتیں پھر کیوں نہ لیں ہم بھوک کے مارے ہوئے

آپ ہیں فضل خدائے پاک سے کرسی نشیں
انتظام سلطنت ہے آپ کے زیر نگیں
آسماں ہے آپ کا خادم تو لونڈی ہے زمیں
آپ خود رشوت کے ذمے دار ہیں فدوی نہیں

بخشتے ہیں آپ دریا کشتیاں کھیتے ہیں ہم
آپ دیتے ہیں مواقع رشوتیں لیتے ہیں ہم

ٹھیک تو کرتے نہیں بنیاد نا ہموار کو
دے رہے ہیں گالیاں گرتی ہوئی دیوار کو
سچ بتاؤں زیب یہ دیتا نہیں سرکار کو
پالئے بیماریوں کو ماریے بیمار کو

علت رشوت کو اس دنیا سے رخصت کیجیے
ورنہ رشوت کی دھڑلے سے اجازت دیجئے

بد بہت بد شکل ہیں لیکن بدی ہے نازنیں
جڑ کو بوسے دے رہے ہیں پیڑ سے چیں بر جبیں
آپ گو پانی الچتے ہیں بہ طرز دل نشیں
ناؤ کا سوراخ لیکن بند فرماتے نہیں

کوڑھیوں پر آستیں کب سے چڑھائے ہیں حضور
کوڑھ کو لیکن کلیجے سے لگائے ہیں حضور

دست کاری کے افق پر ابر بن کر چھائیے
جہل کے ٹھنڈے لہو کو علم سے گرمائیے
کارخانے کیجیے قائم مشینیں لائیے
ان زمینوں کو جو محو خواب ہیں چونکایئے

خواہ کچھ بھی ہو منڈھے یہ بیل چڑھ سکتی نہیں
ملک میں جب تک کہ پیدا وار بڑھ سکتی نہیں

دل میں جتنا آئے لوٹیں قوم کو شاہ و وزیر
کھینچ لے خنجر کوئی جوڑے کوئی چلے میں تیر
بے دھڑک پی کر غریبوں کا لہو اکڑیں امیر
دیوتا بن کر رہیں تو یہ غلامان حقیر

دوستوں کی گالیاں ہر آن سہنے دیجئے
خانہ زادوں کو یونہی شیطان رہنے دیجئے

دام اک چھوٹے سے کوزے کے ہیں سو جام بلور
مول لینے جائیں اک قطرہ تو دیں نہر و قصور
اک دیا جو بیچتا ہے مانگتا ہے شمع طور
اک ذرا سے سنگ ریزے کی ہے قیمت کوہ نور

جب یہ عالم ہے تو ہم رشوت سے کیا توبہ کریں
توبہ رشوت کیسی ہم چندہ نہ لیں تو کیا کریں

زلف اس کوآپریٹیو سلسلے کی ہے دراز
چھیڑتے ہیں ہم کبھی تو وہ کبھی رشوت کا ساز
گاہ ہم بنتے ہیں قمری گاہ وہ بنتے ہیں باز
آپ کو معلوم کیا آپس کا یہ راز و نیاز

ناؤ ہم اپنی کھواتے بھی ہیں اور کھیتے بھی ہیں
رشوتوں کے لینے والے رشوتیں دیتے بھی ہیں

بادشاہی تخت پر ہے آج ہر شے جلوہ گر
پھر رہے ہیں ٹھوکریں کھاتے زر و لعل و گہر
خاص چیزیں قیمتیں ان کی تو ہیں افلاک پر
آب خورہ منہ پھلاتا ہے اٹھنی دیکھ کر

چودہ آنے سیر کی آواز سن کر آج کل
لال ہو جاتا ہے غصے سے ٹماٹر آج کل

نسترن میں ناز باقی ہے نہ گل میں رنگ و بو
اب تو ہے صحن چمن میں خار و خس کی آبرو
خوردنی چیزوں کے چہروں سے ٹپکتا ہے لہو
روپئے کا رنگ فق ہے اشرفی ہے زرد رو

حال کے سکے کو ماضی کا جو سکہ دیکھ لے
سو روپے کے نوٹ کے منہ پر دو انی تھوک دے

وقت سے پہلے ہی آئی ہے قیامت دیکھیے
منہ کو ڈھانپے رو رہی ہے آدمیت دیکھیے
دور جا کر کس لیے تصویر عبرت دیکھیے
اپنے قبلہ جوشؔ صاحب ہی کی حالت دیکھیے

اتنی گمبھیری پہ بھی مر مر کے جیتے ہیں جناب
سو جتن کرتے ہیں تو اک گھونٹ پیتے ہیں جناب

=========

Khatun-e-Mashriq

غنچۂ دل مرد کا روز ازل جب کھل چکا
جس قدر تقدیر میں لکھا ہوا تھا مل چکا

دفعتاً گونجی صدا پھر عالم انوار میں
عورتیں دنیا کی حاضر ہوں مرے دربار میں

عورتوں کا کارواں پر کارواں آنے لگا
پھر فضا میں پرچم انعام لہرانے لگا

ناز سے حوریں ترانے حمد کے گانے لگیں
عورتیں بھر بھر کے اپنی جھولیاں جانے لگیں

جب رہا کچھ بھی نہ باقی کیسۂ انعام میں
کانپتی حاضر ہوئیں پھر ایشیا کی عورتیں

دل میں خوف شومئی قسمت سے گھبرائی ہوئی
رعب سے نیچی نگاہیں آنکھ شرمائی ہوئی

حلم کے سانچے میں روح ناز کو ڈھالے ہوئے
گردنوں میں خم سروں پر چادریں ڈالے ہوئے

آخر اس انداز پر رحمت کو پیار آ ہی گیا
مے کدے پر جھوم کر ابر بہار آ ہی گیا

مسکرا کر خالق ارض و سما نے دی ندا
اے غزال مشرقی آ تخت کے نزدیک آ

نعمتیں سب بٹ چکیں لیکن نہ ہونا مضمحل
سب کو بخشے ہیں دماغ اور لے تجھے دیتے ہیں دل

یہ وہی دل ہے جو مضرب ہوکے سوز و ساز سے
میرے پہلو میں دھڑکتا تھا عجب انداز سے

تجھ کو وہ رخ اپنی سیرت کا دیئے دیتے ہیں ہم
جس میں یزدانی نسائیت کی زلفوں کے ہیں خم

آ کہ تجھ کو صاحب مہر و وفا کرتے ہیں ہم
لے خود اپنی جنبش مژگاں عطا کرتے ہیں ہم

پہلوئے خاتون مشرق میں بصد تمکین و ناز
منتقل ہو جا الوہیت کے سینے کے گداز

عورتیں اقوام عالم کی بھٹک جائیں گی جب
تو رہے گی بن کے اس طوفاں میں اک موج طرب

حسن ہو جائے گا جب اوروں کا وقف خاص و عام
دیدنی ہوگا ترے خلوت کدے کا اہتمام

عالم نسواں پہ کالی رات جب چھا جائے گی
یہ ترے ماتھے کی بندی صبح کو شرمائے گی

عورتیں بیچیں گی جب اسٹیج پر با رقص و چنگ
اپنی آنکھوں کی لگاوٹ اپنے رخساروں کا رنگ

ان کے آگے ہر نیا میدان ہوگا جلوہ گاہ
اور ترا اسٹیج ہوگا صرف شوہر کی نگاہ

گودیاں پھیلا کے جب مانگیں گی با صدق و صفا
عورتیں اولاد کے پیدا نہ ہونے کی دعا

مژدہ باد اے ایشیا کی دختر پاکیزہ تر
آنچ آئے گی نہ تیرے مادرانہ ذوق پر

ماؤں کی غفلت سے جب بچوں کو پہنچے گا گزند
جب فغاں بے تربیت اولاد کی ہوگی بلند

صرف اک تیرا تبسم اے جمال تابناک
سینۂ اطفال میں پیدا کرے گا روح پاک

وہ حرارت تیرے ہونٹوں کی نہ ہوگی پائمال
جس کے شعلوں سے نکھر جاتا ہے رنگ نونہال

وہ تری معصوم رعنائی نہ ہوگی مضمحل
بخشتی ہے نسل انسانی کے پہلو کو جو دل

وہ بھی دن آئے گا جب تجھ کو ہی اے مست حجاب
زیب دے گا مادر اولاد آدم کا خطاب

جب کرے گی صنف نازک اپنی عریانی پہ ناز
صرف اک تو اس تلاطم میں رہے گی پاکباز

ان کے دل جب ہوں گے یاد معصیت سے پاش پاش
تیرے رخ پر ایک بھی ہوگی نہ ماضی کی خراش

ان کی راتیں خوف رسوائی سے ہوں گی جب دراز
تیرے سینے میں کسی شب کا نہ ہوگا کوئی راز

دہشت فردا سے تھرائے گا جب ان کا غرور
حال سے تو ہوگی راضی خوف مستقبل سے دور

جب اڑے گی ان کی چشم دام پروردہ میں خاک
نرم ڈورے تیری آنکھوں کے رہیں گے تابناک

نرم ہوں گے تیرے جلوے بھی تری گفتار بھی
با حیا ہوگی تری پازیب کی جھنکار بھی

چھاؤں بھی ہوگی نہ تیری بزم ناؤ نوش میں
تیرا پرتو تک رہے گا شرم کے آغوش میں

اے شعاع ارض مشرق تیری عفت کا شعار
کج کرے گا ملک و ملت کی کلاہ افتخار

آبرو ہوگا گھرانے بھر کی تیرا رکھ رکھاؤ
دے گا تیرا باپ شان فخر سے مونچھوں پہ تاؤ

تیری آنکھوں کی کرن سے اے جہان اعتبار
جگمگائے گی نسب ناموں کی لوح زر نگار

بو الہوس کا سر جھکا دے گی تری ادنیٰ جھلک
ہوگی لہجے میں ترے نبض طہارت کی دھمک

تیری پیشانی پہ جھلکے گا مثال برق طور
طفل کا ناز شرافت اور شوہر کا غرور

علم سے ہر چند تجھ کو کم کیا ہے بہرہ مند
لیکن اس سے ہو نہ اے معصوم عورت درد مند

جب ضرورت سے زیادہ ناز فرماتا ہے علم
عارض تاباں کے بھولے پن کو کھا جاتا ہے علم

نطق ہو جاتا ہے علمی اصطلاحوں سے اداس
لعل لب میں شہد کی باقی نہیں رہتی مٹھاس

علم اٹھا لیتا ہے بزم جاں سے شمع اعتقاد
خال و خد کی موت ہے چہرے کی شان اجتہاد

قعر وحشت کی طرف مڑتی ہے اکثر راہ فن
جھانکتی رہتی ہے اس غرفے سے چشم اہرمن

چھوڑ دیتی تکلم کو ملائم قیل و قال
علم کا حد سے گزر جانا ہے توہین جمال

علم سے بڑھتی ہے عقل اور عقل ہے وہ بددماغ
جو بجھا دیتی ہے سینے میں محبت کا چراغ

علم سے باقی نہیں رہتے محبت کے صفات
اور محبت ہے فقط لے دے کے تیری کائنات

دیکھ تجھ پر علم کی بھرپور پڑ جائے نہ ضرب
بھاگ اس پردے میں ہیں شیطان کے آلات حرب

علم سے رہتی ہے پابند شکن جس کی جبیں
ناز سے شانوں پر اس کی زلف لہراتی نہیں

وقت سے پہلے بلا لیتے ہیں پیری کو علوم
عمر سے آگے نکل جاتے ہیں چہرے بالعموم

جن لبوں کو چاٹ پڑ جاتی ہے قیل و قال کی
ان کی گرمی کو ترستی ہے جبیں اطفال کی

اک جنوں پرور بگولا ہے وہ علم بے وثوق
جس کی رو میں کانپنے لگتے ہیں شوہر کے حقوق

دور ہی سے ایسے علم جہل پرور کو سلام
حسن نسواں کو بنا دیتا ہو جو جاگیر عام

جس جگہ حوران جنت کا کیا ہے تذکرہ
کیا کہا ہے اور بھی کچھ ہم نے جز حسن و حیا

تذکرہ حوروں کا ہے محض ایک تصویر جمال
ہم نے کیا ان کو کہا ہے ”صاحب فضل و کمال

ہیچ ہے ہر چیز زیور غازہ افشاں رنگ و خال
حسن خود اپنی جگہ ہے سو کمالوں کا کمال

چاندنی، قوس قزح، عورت، شگوفہ، لالہ زار
علم کا ان نرم شانوں پر کوئی رکھتا ہے بار؟

روشنائی میں کہیں گھلتی ہے موج ماہتاب
کیا کوئی اوراق گل پر طبع کرتا ہے کتاب

میرے عالم میں نہیں اس بدمذاقی کا شعار
کاکل افسانہ ہو دوش حقیقت سے دو چار

حسن کا آغوش رنگیں دل فریب و دل ربا
علم سے بن جائے اقلیدس کا محض اک دائرہ

مصحف روئے کتابی روکش ناز گلاب
اور بن جائے یہ نعمت دفتر علم حساب

نغمۂ شیریں کے دامن میں ہو شور کائنات
بزم کاوش میں جلے شمع شبستان حیات

گرم ہو تیزاب کی کھولن سے لالے کا ایاغ
غنچۂ نورس کا طاق اور پیر مکتب کا چراغ

شہپر بلبل پہ کھینچی جائے تصویر شغال!
موتیوں پر ثبت ہو طوفان کی مہر جلال

صبح غرق بحث ہو غنچے کھلانے کے عوض
درس دیں موجیں صبا کی گنگنانے کی عوض

تو نہ کرنا مغربی متوالیوں کی ریس دیکھ
گھات میں تیری لگا ہے فتنۂ ابلیس دیکھ

تو نہ ان کی طرح بھرنا عرصۂ فن میں چھلانگ
کوکھ تا ٹھنڈی رہے بچوں سے اور صندل سے مانگ

دختران مغربی کو دے نہ عورت کا خطاب
یہ مجسم ہو گئے ہیں کچھ گنہ گاروں کے خواب

پھر رہی ہیں یا تری نظروں کے آگے پر فضا
عورتوں کے بھیس میں شیطان کی سرتابیاں

علم حاصل کر فقط تدبیر منزل کے لیے
وہ دماغوں کے لیے ہیں اور تو دل کے لیے

=========

Read More: Ehsan Danish Poetry