Habib Jalib is one of the poets who opposed martial law, military coup, and state oppression and wrote many of his poems on state oppression, which is why he is called a revolutionary poet. Among his poems ‘Mein Nahi Manta Mein Nahi Janta’ and ‘Ye Dais Hai Andhe Logon Ka Ay Chand Yahan Na Nikla Ker’ became very popular.
NAZM
Mein Nahi Manta Mein Nahi Janta (Dastur)
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
=========
Ye Dais Hai Andhe Logon Ka Ay Chand Yahan Na Nikla Ker
بے نام سے سپنے دکھلا کر
اے دل ہر جا نہ پھسلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں راقم سارے لکھتے ہیں
قوانین یہاں نہ ٹکتے ہیں
ہیں یہاں پر کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں ڈالر ڈالر ہوتی ہے
کسوٹی ہے جی ڈی پی اور
کچھ لوگ ہیں عالیشان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
امید کو لے کر پڑھتے ہیں
پھر ڈگری لے کر پھرتے ہیں
جب جاب نہ ان کو ملتی ہے
پھر خودکش حملے کرتے ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچا ہے
کھوتا گاڑی والا کیوں مانے
جب بھوکا اس کا بچہ ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
=========
Jamhuriyat
دس کروڑ انسانو
زندگی سے بیگانو
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو
بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں
کس ہوا میں رہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو
فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لے کر
تم نہ اٹھ سکو لوگو
کب تلک یہ خاموشی
چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو
یہ ملیں یہ جاگیریں
کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں
کس کے بل پہ جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل
داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی
کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آ کر
کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں
کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسانو
علم و فن کے رستے میں
لاٹھیوں کی یہ باڑیں
کالجوں کے لڑکوں پر
گولیوں کی بوچھاڑیں
یہ کرائے کے غنڈے
یادگار شب دیکھو
کس قدر بھیانک ہے
ظلم کا یہ ڈھب دیکھو
رقص آتش و آہن
دیکھتے ہی جاؤ گے
دیکھتے ہی جاؤ گے
ہوش میں نہ آؤ گے
ہوش میں نہ آؤ گے
اے خموش طوفانو
دس کروڑ انسانو
سیکڑوں حسن ناصر
ہیں شکار نفرت کے
صبح و شام لٹتے ہیں
قافلے محبت کے
جب سے کالے باغوں نے
آدمی کو گھیرا ہے
مشعلیں کرو روشن
دور تک اندھیرا ہے
میرے دیس کی دھرتی
پیار کو ترستی ہے
پتھروں کی بارش ہی
اس پہ کیوں برستی ہے
ملک کو بچاؤ بھی
ملک کے نگہبانو
دس کروڑ انسانو
بولنے پہ پابندی
سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی
آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرف آخر ہے
بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا
رات چند لوگوں کی
اٹھ کے درد مندوں کے
صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
دس کروڑ انسانو
=========
Zulmat Ko Ziya Sarsar Ko Saba Bande Ko Khuda Kya Likhna
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کر گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
=========
Aurat
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا
دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ ڈھائیں
انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں
مجبور کے سر پر ہے شاہی کا وہی سایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کے پڑے رہنا
تائید ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا
حق جس نے نہیں چھینا حق اس نے کہاں پایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
کٹیا میں ترا پیچھا غربت نے نہیں چھوڑا
اور محل سرا میں بھی زردار نے دل توڑا
اف تجھ پہ زمانے نے کیا کیا نہ ستم ڈھایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں
سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں
تجھ کو کبھی جلوایا تجھ کو کبھی گڑوایا
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
=========
14 August
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک
=========
GHAZAL
Tum Se Pahle Wo Jo Ek Shakhs Yahan Takht-Nashin Tha
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
=========
Dil Ki Baat Labon Par La Kar Ab Tak hum Dukh Sahte Hain
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں
=========
Sher Se Shairi Se Darte Hain
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دہر میں آہ بے کساں کے سوا
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں
=========
Dushmanon Ne Jo Dushmani Ki Hai
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے
=========
Bhula Bhi De Use Jo Baat ho Gai Pyare
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے
تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے
وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے
=========
Read More: Ahmad Nadeem Qasmi